Nov 29, 2013

IN SEARCH OF THEE

IN SEARCH OF THEE


انجمن انجمن تجکو ڈھونڈا کۓ انجمن انجمن انجمن انجمن 


خود کے انوار پر جب نگاہیں پڑیں تجکو پایا رگ جاں میں جلوہ فگن

अंजुमन अंजुमन तुझको ढूँडा किए       अंजुमन अंजुमन अंजुमन अंजुमन

ख़ुद के अनवार पर जब निगाहें पड़ीं तुझको पाया रग-ए-जाँ में जल्वा फ़िगन


In search of thee I went from galaxy to galaxy from galaxy to galaxy

But found you within close to jugular when I looked into myself and the light within


Nov 26, 2013

LA ILAHA ILLALLAH (لا الہٰ الا اللہ)

LA ILAHA ILLALLAH

 (لا الہٰ الا اللہ)




Translation: Khaliqur Rahman

The secret of the noble origin of i-ness is nothing is but ONE
I-ness is a dull cutting-edge; its touchstone is nothing is but ONE
This era is looking for its Abraham
This world is a house of idols: nothing is but ONE
You've struck a deal for material and conceit
Deceit fraught with fraud: nothing is but ONE
Attachment to riches and relations
Are just mirages: nothing is but ONE
Intellect worships Time and Space
No Time No Space: nothing is but ONE
This Music doesn't go by flowering seasons
Be it spring, be it autumn: nothing is but ONE
When everyone in the fold hides an idol within
I'm ordained to call for everyone to believe: nothing is but ONE

Nov 22, 2013

ہم دیکھینگے، ہم دیکھینگےSee will we, we will see.

See will we, we will see. 

ہم دیکھینگے، ہم دیکھینگے


ہم دیکھینگے، ہم دیکھینگے ٭ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھینگے ٭ وہ دن کہ جسکا وعدہ ہے ٭

جو لوہ ازل میں لکھا ہے ٭ جب ظلم و ستم کے کوہ گراں ٭ روئ کی طرح اڑ جائينگے ٭
ہم محکموں کے پاؤں تلے٭ یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکیگی ٭ اور اہل حکم کے سر اوپر ٭
جب بجلی کڑ کڑ کڑکیگی ٭ جب ارض خدا کے کعبہ سے ٭ سب بت اٹھواۓ جائینگے ٭
ہم اہل صفا مردود حرم ٭ مسند پہ بٹھاۓ جائینگے ٭ سب تاج اچھالے جائینگے ٭
سب تخت گراۓ جائینگے٭ بس نام رہیگا اللاہ کا ٭ جوغائب بھی ھے حاضر بھی ٭
جو منظر بھی ہے ناظر بھی ٭ اٹھیگا انالحق کا نعرہ ٭ جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو ٭
اور راج کریگی خلق خدا ٭ جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو ٭ ہم دیکھینگے، ہم دیکھینگے٭

FAIZ
Translation: Khaliqur Rahman

See will we, we will see.
Imminent it is that we will see.
We will see.  See will we.
Promised is the day in the tablet of divinity.
That we will see.
When the mountain-peaks of cruel tyranny
Blown away will they be like cotton-wool.
Beneath the oppressed feet, the heart of the
Mother Earth will pit-pat-palpitate.
And above the swollen heads of power
The lightning will clip clap crack and thunder.
We will see.
Will the idols be lifted from God’s own House Ka’bah
And the deprived souls will with honour be
seated.
All crowns will be tossed and thrones,
 Thrown. See that, we will.
See will we.
The imperishable name, GOD, will remain,
The invisibly Omnipresent,
The Seen and the Seer Invisible.
The resounding cry of I AM THE TRUTH
Will touch the skies: which I am a part of
And so are YOU.
The Rule of God will rule: which you are a part of and so am I.

Imminent it is that see we will.
We will see.  See will we.


Nov 17, 2013

THE SON OF THE SOIL TOUCHES THE MOTHER EARTH

Million hearts are touched as the Son of the Soil

 touches

Mother Earth!

Khaliqur Rahman


The Little Master bends down in humility to touch the Mother Earth, the 22 yards, and a million hearts are touched. In that is a message for young sports-persons, in particular and career-aspirants in general. How much does the country now need people with the heart and the head of a Tendulkar.




Tendulkar, while referring to his mother, said he was a difficult boy to handle. Why only mother? Ask the bowlers who bowled to him, ask the batsmen he bagged and ask the fielders who tried to field to his shots and chased the cherry to the boundary! An honest player like him who plays cricket as a gentleman's game in the spirit of the game and bats with a straight bat is difficult to handle. But the beauty is: handlers of all kinds love him!
Gavaskar retired after scoring a hundred in the Bi-centenary Test at Lords. And, Bedi rightly commented that for a cricketer to emulate this feat of Gavaskar, he not only needs to score a century, but do it at Lord's and wait for 200 years! Gavaskar's timing and placement was as precise and shrewd as his straight drive. It was a heady farewell.
Then Gilchrist retired. And he made it crisp sweet and precise as any lofted shot of his. It was pretty emotional.
But this one stands out. His speech said it all. It was like any of his long innings replete with delightful shots of control and discipline, humility and honest expression of emotions and a touch of unique greatness all over!
I repeat: How much does the country now need people with the heart and the head of a Tendulkar.

Nov 13, 2013

I REMEMBER THE GOOD OLD DAYS



آتا ہے یاد مجکو گزرا ہوا زمانہ


आता है याद मुझको गुज़रा हुआ ज़माना


I REMEMBER THE GOOD OLD DAYS

Khaliqur Rahman






آتا ہے یاد مجکو گزرا ہوا زمانہ ٭ وہ باغ کی بہاریں وہ سبکا چہچہانا

وہ پیاری پیاری صورت وہ کامنی سی مورت٭ آباد جسکے دم سے تھا میرا آشیانہ



आता है याद मुझको गुज़रा हुआ ज़माना * वो बाग़ की बहारें वो सबका चहचहाना



वो प्यारी प्यारी सूरत वा कामिनी सी मूरत * आबाद जिसके दम से था मेरा आशियाना


I remember the good old days * Those springs and those chirpings

That lovely face (of Mother) the statue like countenance * Because of her there was life in Ashyana

ہم اپنی نانی کو اما بولتے تھے اور والد کو صاحب جی، جو بولنے۔سننے میں صابجی ہو جاتا تھا- صاحبجی وکالت کرتے تھے- ان دنوں انگریزوں کی سرکار تھی اور کچھ وکیلوں کو سرکاری مجسٹریٹ 2-3 سال کے لۓ بنایا جاتا تھا- مجھے یاد ہے صابجی بھی واراسیونی اور ساکولی میں مجسٹریٹ تھے- مجھے یاد ہے ساکولی میں شام ہوتے ہی چپراسی ہریکین لالٹینوں کی صاف صفائ کرکے انہیں روشنی کے لۓ جلا دیا کرتے تھے-


ساکولی سے ہملوگ رائپور آۓ تھے

پہنچتے پہنچتے شام ھونے آگئ تھی اور میں چاروں طرف ایک الگ طرح کی روشنی دیکھکر ایک خوشنما حیرت انگیز کیفیت میں سمجھ نہیں پارہا تھا کہ یہ سب کیسا۔ کیا ہے؟! امی نے بتایا کہ یہ بجلی کی روشنی ہے!






ہملوگ آشیانہ پہنچے تو آشیانہ بھی میرے لۓ ایک عجوبہ تھا ۔۔۔

ہمارا ٹانگا ایک لکڑی کے گیٹ کو کھلواکر کمپاؤنڈ میں داخل ہوا- احاطہ لکڑی کی فنسنگ اور کنیر کے جھاڑوں  سے گھیراگیا تھا- سامنے ایک برامدہ،اندر دو بڑے کمرے اور انسے لگے دائیں اور بائیں طرف دو چھوٹے کمرے جنسے لگے غسلخانے، پھر اندر کا برامدہ، جسمیں آنے کے لۓ دونوں بڑے کمروں سے اور غسلخانوں سے دروازے- اس اندر کے برامدے سے جڑا ایک اور تھوڑا سکرا اور کھڑا برامدہ جسسے جڑے داہنے طرف والے غصلخانے سے لگے تین چھوٹے کمرے، ایک ڈائننگ روم اور اس سے لگا کچن- کچن سے لگا ایک اور سکرا کمرا جسے لکڑی کی کھولی کہا جاتا تھا- ان دنوں کھانا لکڑی کے چولہوں پر بنتا تہا- چھوٹے برامدہ کے آخر میں ایک سیمنٹ کی گھڑونچی تھی جسپر پینےکے پانی کے گھڑے ہوتے تھے- دونوں برامدوں سے لگا ایک اچھا خاصہ صحن اور صحن کی اونچی دیوار میں ایک پیچھے کا دوزہ اور بائیں کونے میں دو پیخانے- 
آشیانے کے بیچھے نوکروں کے لۓ کھولیاں اور تین موٹرخانے-
آشیانہ کے صحن میں ایک پانی کا ٹانکہ تھا جسسے لگا ھوا برتن مانجنے کا چھوٹی میڑھ والا چبوترا تھا- ٹانکہ کا نل کھولکے اور اسمیں لگے ایک اینٹ کے پانی نکلنے کے راستہ کو بند کرکے، ٹانکہ میں پانی بھر لیا جاسکتا تھا- گرمیوں میں اکثر ہم لوگ اسمیں پانی بھر کے کھیلا کرتے تھے- ان دنوں آشیانہ میں بڑے ماما کی فیملی، دلدا، یعنی ہماری خالا کی اور امی کی فیملی رہتی تھی۔ گرمی کی چھٹیاں تھیں تو بمبئ سے حاجی ماما بھی آ گۓ تھے- مہر آپا یعنی لطفللاہ خانصاحب کی بیٹی، جو در اصل ہماری خالا ہوتی تھیں، وہ بھی ہماری نانی، جنکوہمنے نانی کبھی نہیں کہا، ہمیشہ اما ہی کہا کیا، انسے ملنے آئیں تھیں- ہم بچوں نے ٹانکے میں پانی بھرا اور اسمیں اتر کے کھیلنا شروع کر دیا- ظاہر ہے ہم بچوں نے ایک چھوٹی نکر ہی پہن رکھی تھی- ہم بچوں کو دیکھ تین بڑے بھی کود پڑے، رفیع کی والدہ، عالیہ ممانی، مہر آپا اور حاجی ماما، اور حاجی ماما فقط انڈر ویر میں! ٹانکے میں جو بچے تھے، انمیں رفیع اور لبنا، میں اور راجا اور خطیب، نوشید، اور پھر بڑے جو اس دن بچے بنگۓ تھے، عالیہ ممان، مہر آپا اور حاجی ماما! 

Nov 12, 2013

ایک شعر کے بہانے EK SHE'R KE BAHANE

ایک شعر کے بہانے

خلیق الرحمان



گو نشیمن مین مجھے چین نہ تھا اۓ صیاد
اپنا گھر کچھ بھی ہو ویراں نہیں دیکھا جاتا


امی کہا کرتی تھیں اپنے نانا صاحب کے بارے میں- میں بہت چھوٹا تھا- سنا کرتا تھا- نانا صاحب دیوان تھے- اکبر خان صاحب- انگریزوں نے خطاب دیا تھا- خان صاحب اکبر خاں، دیوان
اکبر خاں صاحب کے بڑے لڑکے  بیرسٹر حفیظ ، انسے چھوٹے دو، جنہیں لوگ باجی اور سمیع سے جانتے، ان تینوں کے حصہ میں عمر مختصر ہی ملی- جوتھے نمبر پہ  عطا اللاہ خاں! انہیں میں نے دیکھا ہے- انجینیر ماموں کہلاتے تھے،انکے پاس ہینڈل مارکے چالوکرنےوالی ایک کنورٹبل، شاید، فورڈ گاڑی تھی امی بتایا کرتی تھیں،  بیرسٹر حفیظ کےکپڑے ولایت دھلنے جایا کرتے تھے-  امی بتاتی تھیں، انکے موکل جو سکے انہیں فیس میں دیا کرتے تھے، انہیں کہا جاتا تھا سکوں کو پہلے اس کوںڈے میں ڈالیں جسمیں پوٹاش کا پانی ھوا کرتا تھا
انجینیر ماموں کی اہلیہ، ناز ممانی، خاندان کی دوسری عورتوں کی بنزبت مجھے تھوڑا فیشنبل دکھتی تھیں
مجھے وہ یاد ہے جب عطا ماموں رخصت ہونے سے پہلے نانی اماں سے گلے ملتے وقت خوب زوروں سے روۓ تھے۔ 
نانی اما،یعنی میری پڑنانی، بھی اتنا چلا کر روئ تھیں کہ اکبر منزل کا دالان دہل گیا تھا
!خان صاحب اکبر خاں دیوان صاحب کے دو لڑکے اور تھے، لطف اللاہ اور حبیب اللاہ، جومحلہ میں چھوٹے صاحب ماموں اور ہیڈ ماموں کے نام سے جانے جاتے تھے- چھٹصاب ماموں سے اور انکے ہی بڑے بھائ سمیع صاب سے انکے بزرگ ناراض تھے کیونکہ انہوں نے شادیاں اپنی مرضی سے کرلی تھیں
عطا ماموں کے پاکستان چلے جانے کے بعد اکبر منزل قریب قریب خالی ہو گیا تھا
اکبر خان صاحب کی تین بیٹیاں تھیں، جنمیں ایک کم عمری کا شکار ہئ- شہزادی بیگم (میری نانی) جناب عبدالوحید خان (تحصیلدار) کو بیاہی گئیں اور محمدہ بیگم، خان بہادر عبدالغفار خاں صاحب (دیوان صاحب) کو- 
بچپن کی یادوں میں یہ بھی ہے کہ اکبر منزل کے دالان میں ایک تخت، اسپر میں اور میرا ممیرا بھائ رفیع، عید کے دن شیروانی پہنکے گلے ملتے ملتے فرش پر گر پڑے اور سارے بڑے دوڑ آۓ کہ کہیں بچوں کو چوٹ تو نہیں لگی- 
مجھے یہ بھی یاد ھے کہ ہماری خالا دلبر جہاں بیگم، جنہیں میں دلدا بولا کرتا تھا،پھر سبنے انہیں دلدا کے نام سے ہی پکارا، وہ ایک شام غرارہ کرتا پہنکر صحن سے لگے برامدے میں "اما چھو۔ اما چھو" بولتی ہوئ رسی کود رہی تھیں- تب 
انکی شادی نہیں ھوئ تھی
اب اکبر منزل کھڑا تو ہے، لیکن ویران! وہاں اب خان صاحب اکبر خاں دیوان صاحب کا کوئ نہیں



HAYAT MAUT-NUMA INTESHAR KA A'ALAM

حیات موت نما، انتشار کا عالم
یے موج دود کہ دھندلی فضا کی نبيں ہیں



خلیق الرحمان
حیات یعنی جیون، زندگی- حیات موت نما یعنی موت جیسی حیات، مرتیو تلیا جیون-
زندگی کیا ہے؟ دلوں کا دھڑکنا- سانسوں کا آنا جانا- ناڑیوں کا ٹپٹپانا- سورج کا نکلنا اور ڈوبکر پھر سے نکلنا- پھولوں کا کھلنا، مرجھانا، پھر کھلنا- اس پھر سے ہوجانے میں ہی زندگی ہے، اور پھر سے نہ ہونے میں، موت! چاہے وہ دھڑکن ہو، ناڑی ہو، سانس ہو، سورج، چاند، ستارے، پھل، پتے، موسم، مسافر، فوجی- لوٹ آۓ تو زندگی - نہ لوٹے تو؟
وقت سے پھر سے ہوجانے میں ہی تو زندگی، تال ہے، سنگیت یعنی موصیقی ہے- زندگی کا لطف بھی اسی نظام میں ہے- اسی پھر سے ہو جانے میں دیرہوجانے سے تال ٹوٹ جاتی ہے، سنگیت بیمزہ ہوجاتا ہے- اور ایسا بار بار ہونے لگے تو زندگی بھی دم توڑنے لگتی ہے- سنگیت کی جگہ شور ہونے لگتا ہے-
جہاں تال نہ ہو وہاں موت میں جان پڑنے لگتی ہے- زندہ لوگ موت کے نغمے گنگنانا شروع کردیتے ہیں- زندگی کے سنگیت کی تال، تال سے بیتال ہونے لگتی ہے-
اور اسی است ویستتا کو ہی انتشار کہتے ہیں- چاروں طرف انتشار کا عالم! کہیں کوئ ویوستھا، کہیں کوئ نظام، نظر ہی نہیں آتا- نہ پیٹرن دکھتا ہے نہ کوئ ڈزائن- بس ایک گلا گھونٹنے والے دھنویں کی بیترتیب، است-ویست لہر- اسی کو موج دود کہ لیں- اور اب لگتا ہے، یہ موج دود، اس ساری فضا کا، یعنی اس سمپوڑن واتا وڑن کا، گلا ہی نہ گھنٹ دے- کیونکہ فضا کی نبزیں، یعنی واتاوڑن کی ناڑیاں دھندلی پڑتی جارہی ہیں- اور زندگی چھٹپٹا رہی ہے جیسے مرگی آگئ ہو، اور مرگی بھی ایسی مرگی کہ کوئ چھٹپٹاہٹ کی رفتار دیکھلے تو اسے بھی مرگی آجاۓ-
اسی چھٹپٹاہٹ میں جو ہوجاۓ وہ ہی زندگی کہلیں یا موت- چاہے وہ بوسنیا ہو یا الفران، جاہے فیلن یا حیان-چاہے وہ انران کا ایم او یو ہو یا اسکی برخاستگی- چاہے وہ لوکسبھا چناؤ ہو یا کالج کا الیکشن- چاہے وہ ٹریفک کی ہلچل ہو یا آجکل کا فلمی گانا- ان سب میں وہی دشاہین ہرکتیں، وہی بیقابو چھٹپٹاہٹ-
 ہماری اس چھٹپٹاتی زندگی سے فضاؤں کی نبزیں بھی ڈھیلی پڑگئیں- وہاں بھی قدرت بیقابو ہوتی جارھی ہے- کہیں کوئینا، کہیں لاتر- کبھی یورپ میں کبھی کوریا میں بارش کا پانی گھروں میں! 
اتنی چھٹپٹاھٹ میں، چھٹپٹاتے ہاتھوں میں اگر مشینیں دےدی جائیں تو یا تو بھوپال ہو یا فیروزآباد ! اور انہیں ہاتھوں میں ملک کی باگڈور ہو تو؟!

Nov 10, 2013

جی میں آتا ہے کہ چاک انکا بھی داماں کردوںJEE ME'N AATA HAI KI CHAAK UNKA BHI DAAMAA'N KARDOO'N

جی میں آتا ہے کہ چاک انکا بھی داماں کردوںJEE ME'N AATA HAI KI CHAAK UNKA BHI DAAMAA'N KARDOO'N

Khaliqur Rahman



جی میں آتا ہے کہ چاک انکا بھی داماں کردوں
چاک جب اپنا گریباں نہیں دیکھا جاتا

जी में आता है कि चाक उनका भी दामाँ करदूँ

चाक जब अपना गिरेबाँ नहीं देखा जाता

Sometimes I think of tearing her hemline

When I can't bear to see my own collar
بہتی ہوئ ندی   کے کناروں کی بات ہے

سمجھیگا اسکو کون اشاروں کی بات ہے

خلیق الرحمان

ندی کے کنارے کبھی نہیں ملتے، جیسے ریل کی دو پاتیں، جیسے دو سمانانتر ریکھائیں، یا جیسے انسان اور خدا، یا آتما اور پرماتما یعنی روح اور اللاہ-
لیکن دور تک دیکھنے سے دکھتا ہے، دور کہیں ندی کے دو کنارے ملکر ایک ہوجاتے ہیں- ریل کی دو پاتیں ملکر ایک ہوتی دیکھتی ہیں- اور ایسے ہی دو سمانانتر ریکھائیں- اور، شاید ایسے ہی، انسان اور اللاہ-
بھرم یعنی گمان کے پیچھے بھاگنے سے، گمان آگے آگے اور ہم پیچھےپیچھے- بھاگتے ہی رہتے ہیں- لیکن بھاگتے رہنے سے، سفر، زندگی کا سفر، کٹتا تو جاتا ہے- اور ایک اچھا لکشیا یعنی مقصد سامنے بنا تو رہتا ہے، ہمیشہ- ورنہ بھاگتے رہنے کے لۓ کئ اور ارادہ بھی تو ہو سکتے تھے- خراب ارادوں کے پیچھے بھی تو بھاگا جا سکتا تھا-
یا پھر بھاگتے ہی نہیں، جھاڑ پودوں کی طرح کھڑے ہو جاتے-
ندی سوکھی بھی تو ہو سکتی تھی- سوکھی ندی کی بات ہوتی تو شاید کنارے اور بھی الگ الگ لگتے- ریل کی پاتوں پر اگر ریل ہی نہ چلتی تو پٹریاں کیسی دکھتیں؟ دو ہمفاصلہ لکیروں کو ایک آڑی لکیر کاٹتی، تو کچھتو میل بنتا دیکھتا! 
بہتی ھوئ ندی کے کنارے بھاؤ سے کچھتو رشتہ قائم کرلیتے ہیں- پاتوں پر ریل چلتی ہو تو دونوں پانتوں میں چمک بھی پیدا ہوتی ہے اور ایک رابطہ بھی قائم ہوجاتا ہے-
تب کیا انیں اشاروں کو سمجھکر کچھلوگوں نے جسم کو زمین سمجھلیا اور انسان و خدا کو ندی کے دو کنارے؟ اور پھر ان کناروں کے بیچ سانسوں کی ندیاں بہاکر کبھی نہ ملنے والے کناروں کو دم بدم ، سانس در سانس ملاتے رہے-
جہاں ندیاں سوکھگئ ہوں، وہاں پیسا بہتا ہے، جہاں خون رگوں میں نہں بہتا، وہاں سڑکیں لہو کی ندیاں بن ہی جاتی ہیں- ایسے میں پیڑ پودوں کے، ہمارے۔آپکے دقیہنوس روئیہ کے ہوتے ان اشاروں کو کیا سمجھے؟!       


Nov 9, 2013

NIGHT OF SEPARATION I CAN'T SEE YE WEEP

NIGHT OF SEPARATION I CAN'T SEE YE WEEP
K Rahman
رات بھر ساتھ میرے روتی ہے شبنم پیہم
شب حجراں تجھے گریاں نہیں دیکھا جاتا

रात भर साथ मेरे रोती है शबनम पैहम
शब-ए-हिजराँ तुझे गिरयाँ नहीं देखा जात


The dewdrops weep the whole night with me
The night of separation, I can't bear to see ye weep

Nov 8, 2013

GHAZAL RECITATION IN A NIGHT OF SEPARATION

GHAZAL RECITATION IN A NIGHT OF SEPARATION
Khaliqur Rahman

وہ بھی کہتے ہیں کہ اب جودت دیوانہ کو

شب حجراں میں غزلخواں نہیں دیکھا جا تا

वो भी कहते हैं कि अब जौदत-ए-दीवाना को

शब-ए-हिजराँ में ग़ज़लख़्वाँ नहीं देखा जाता

,She also says
'it is unbearable to listen to mad 'Jaudat"

."Reciting a ghazal during a night of separation

Nov 5, 2013

TAKE LIFE AS IT COMES

TAKE LIFE AS IT COMES
Khaliqur Rahman






TAKE LIFE AS IT COMES 
 GROW OLD GRACIOUSLY 
 HALF IN LOVE WITH AN EASE-FULL DEATH 
 AND HALF IN LOVE WITH 

 THE GLORY OF ANOTHER DAY

BREATHE OUT TO DIE 

 BREATHE IN TO LIVE 
 ENJOY THE MOMENT 
 LIVE LIFE TO THE FULL