Nov 13, 2013

I REMEMBER THE GOOD OLD DAYS



آتا ہے یاد مجکو گزرا ہوا زمانہ


आता है याद मुझको गुज़रा हुआ ज़माना


I REMEMBER THE GOOD OLD DAYS

Khaliqur Rahman






آتا ہے یاد مجکو گزرا ہوا زمانہ ٭ وہ باغ کی بہاریں وہ سبکا چہچہانا

وہ پیاری پیاری صورت وہ کامنی سی مورت٭ آباد جسکے دم سے تھا میرا آشیانہ



आता है याद मुझको गुज़रा हुआ ज़माना * वो बाग़ की बहारें वो सबका चहचहाना



वो प्यारी प्यारी सूरत वा कामिनी सी मूरत * आबाद जिसके दम से था मेरा आशियाना


I remember the good old days * Those springs and those chirpings

That lovely face (of Mother) the statue like countenance * Because of her there was life in Ashyana

ہم اپنی نانی کو اما بولتے تھے اور والد کو صاحب جی، جو بولنے۔سننے میں صابجی ہو جاتا تھا- صاحبجی وکالت کرتے تھے- ان دنوں انگریزوں کی سرکار تھی اور کچھ وکیلوں کو سرکاری مجسٹریٹ 2-3 سال کے لۓ بنایا جاتا تھا- مجھے یاد ہے صابجی بھی واراسیونی اور ساکولی میں مجسٹریٹ تھے- مجھے یاد ہے ساکولی میں شام ہوتے ہی چپراسی ہریکین لالٹینوں کی صاف صفائ کرکے انہیں روشنی کے لۓ جلا دیا کرتے تھے-


ساکولی سے ہملوگ رائپور آۓ تھے

پہنچتے پہنچتے شام ھونے آگئ تھی اور میں چاروں طرف ایک الگ طرح کی روشنی دیکھکر ایک خوشنما حیرت انگیز کیفیت میں سمجھ نہیں پارہا تھا کہ یہ سب کیسا۔ کیا ہے؟! امی نے بتایا کہ یہ بجلی کی روشنی ہے!






ہملوگ آشیانہ پہنچے تو آشیانہ بھی میرے لۓ ایک عجوبہ تھا ۔۔۔

ہمارا ٹانگا ایک لکڑی کے گیٹ کو کھلواکر کمپاؤنڈ میں داخل ہوا- احاطہ لکڑی کی فنسنگ اور کنیر کے جھاڑوں  سے گھیراگیا تھا- سامنے ایک برامدہ،اندر دو بڑے کمرے اور انسے لگے دائیں اور بائیں طرف دو چھوٹے کمرے جنسے لگے غسلخانے، پھر اندر کا برامدہ، جسمیں آنے کے لۓ دونوں بڑے کمروں سے اور غسلخانوں سے دروازے- اس اندر کے برامدے سے جڑا ایک اور تھوڑا سکرا اور کھڑا برامدہ جسسے جڑے داہنے طرف والے غصلخانے سے لگے تین چھوٹے کمرے، ایک ڈائننگ روم اور اس سے لگا کچن- کچن سے لگا ایک اور سکرا کمرا جسے لکڑی کی کھولی کہا جاتا تھا- ان دنوں کھانا لکڑی کے چولہوں پر بنتا تہا- چھوٹے برامدہ کے آخر میں ایک سیمنٹ کی گھڑونچی تھی جسپر پینےکے پانی کے گھڑے ہوتے تھے- دونوں برامدوں سے لگا ایک اچھا خاصہ صحن اور صحن کی اونچی دیوار میں ایک پیچھے کا دوزہ اور بائیں کونے میں دو پیخانے- 
آشیانے کے بیچھے نوکروں کے لۓ کھولیاں اور تین موٹرخانے-
آشیانہ کے صحن میں ایک پانی کا ٹانکہ تھا جسسے لگا ھوا برتن مانجنے کا چھوٹی میڑھ والا چبوترا تھا- ٹانکہ کا نل کھولکے اور اسمیں لگے ایک اینٹ کے پانی نکلنے کے راستہ کو بند کرکے، ٹانکہ میں پانی بھر لیا جاسکتا تھا- گرمیوں میں اکثر ہم لوگ اسمیں پانی بھر کے کھیلا کرتے تھے- ان دنوں آشیانہ میں بڑے ماما کی فیملی، دلدا، یعنی ہماری خالا کی اور امی کی فیملی رہتی تھی۔ گرمی کی چھٹیاں تھیں تو بمبئ سے حاجی ماما بھی آ گۓ تھے- مہر آپا یعنی لطفللاہ خانصاحب کی بیٹی، جو در اصل ہماری خالا ہوتی تھیں، وہ بھی ہماری نانی، جنکوہمنے نانی کبھی نہیں کہا، ہمیشہ اما ہی کہا کیا، انسے ملنے آئیں تھیں- ہم بچوں نے ٹانکے میں پانی بھرا اور اسمیں اتر کے کھیلنا شروع کر دیا- ظاہر ہے ہم بچوں نے ایک چھوٹی نکر ہی پہن رکھی تھی- ہم بچوں کو دیکھ تین بڑے بھی کود پڑے، رفیع کی والدہ، عالیہ ممانی، مہر آپا اور حاجی ماما، اور حاجی ماما فقط انڈر ویر میں! ٹانکے میں جو بچے تھے، انمیں رفیع اور لبنا، میں اور راجا اور خطیب، نوشید، اور پھر بڑے جو اس دن بچے بنگۓ تھے، عالیہ ممان، مہر آپا اور حاجی ماما! 

No comments:

Post a Comment