Nov 10, 2013

بہتی ہوئ ندی   کے کناروں کی بات ہے

سمجھیگا اسکو کون اشاروں کی بات ہے

خلیق الرحمان

ندی کے کنارے کبھی نہیں ملتے، جیسے ریل کی دو پاتیں، جیسے دو سمانانتر ریکھائیں، یا جیسے انسان اور خدا، یا آتما اور پرماتما یعنی روح اور اللاہ-
لیکن دور تک دیکھنے سے دکھتا ہے، دور کہیں ندی کے دو کنارے ملکر ایک ہوجاتے ہیں- ریل کی دو پاتیں ملکر ایک ہوتی دیکھتی ہیں- اور ایسے ہی دو سمانانتر ریکھائیں- اور، شاید ایسے ہی، انسان اور اللاہ-
بھرم یعنی گمان کے پیچھے بھاگنے سے، گمان آگے آگے اور ہم پیچھےپیچھے- بھاگتے ہی رہتے ہیں- لیکن بھاگتے رہنے سے، سفر، زندگی کا سفر، کٹتا تو جاتا ہے- اور ایک اچھا لکشیا یعنی مقصد سامنے بنا تو رہتا ہے، ہمیشہ- ورنہ بھاگتے رہنے کے لۓ کئ اور ارادہ بھی تو ہو سکتے تھے- خراب ارادوں کے پیچھے بھی تو بھاگا جا سکتا تھا-
یا پھر بھاگتے ہی نہیں، جھاڑ پودوں کی طرح کھڑے ہو جاتے-
ندی سوکھی بھی تو ہو سکتی تھی- سوکھی ندی کی بات ہوتی تو شاید کنارے اور بھی الگ الگ لگتے- ریل کی پاتوں پر اگر ریل ہی نہ چلتی تو پٹریاں کیسی دکھتیں؟ دو ہمفاصلہ لکیروں کو ایک آڑی لکیر کاٹتی، تو کچھتو میل بنتا دیکھتا! 
بہتی ھوئ ندی کے کنارے بھاؤ سے کچھتو رشتہ قائم کرلیتے ہیں- پاتوں پر ریل چلتی ہو تو دونوں پانتوں میں چمک بھی پیدا ہوتی ہے اور ایک رابطہ بھی قائم ہوجاتا ہے-
تب کیا انیں اشاروں کو سمجھکر کچھلوگوں نے جسم کو زمین سمجھلیا اور انسان و خدا کو ندی کے دو کنارے؟ اور پھر ان کناروں کے بیچ سانسوں کی ندیاں بہاکر کبھی نہ ملنے والے کناروں کو دم بدم ، سانس در سانس ملاتے رہے-
جہاں ندیاں سوکھگئ ہوں، وہاں پیسا بہتا ہے، جہاں خون رگوں میں نہں بہتا، وہاں سڑکیں لہو کی ندیاں بن ہی جاتی ہیں- ایسے میں پیڑ پودوں کے، ہمارے۔آپکے دقیہنوس روئیہ کے ہوتے ان اشاروں کو کیا سمجھے؟!       


1 comment:

  1. https://audioboo.fm/boos/1718436-behti-huwee-nadi-ke-kinaro-n-ki-baat-hai

    ReplyDelete